حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ تہجد کی نماز کے بہت پابند تھے
اپنے آخری ایام علالت اور مرضِ وصال میں جب آپ دن رات غنودگی کی کیفیت میں تھے تب بھی تہجد کے وقت اٹھ بیٹھتے اور آنکھیں بند کر کے کافی ٹائم بیٹھے رہتے
آپ فرماتے تھے کہ:
“رات کی تنہائی میں انسان کی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسو زمانے بدل دیتے ہیں ، طوفانوں کا رُخ موڑ دیتے ہیں۔آہ و فغانِ نیم شب کے سامنے کوئی مشکل مقام مشکل نہیں رہتا۔ ہر ناممکن ، ممکن ہو جاتا ہے۔”
آپ نے جو کلام لکھا ہے اس پر تاریخ اور وقت اکثر لکھا ہوتا تھا۔ یہ کلام صبح 2.30 سے لے کر 4.30 کے درمیان لکھا گیا ہے
یہ وہ خاص وقت ہے جس میں “ آہِ سحر گاہی” کرنے والوں کو
اللّٰہ تعالیٰ نے
“ مُستغفرین بالاسحار”
کا خطاب عطا فرمایا ہے
علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنے یورپ کے قیام کے دوران سحر کی عبادت کے یہ معمولات کبھی ترک نہ کیے تھے چنانچہ اس بارے میں خود فرماتے ہیں کہ
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے یورپ میں بھی آدابِ سحر خیزی
یہ وہ آداب تھے، یہ سحر خیزی کے وہ باب تھے جو آپ سرکار رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے شدید ترین علالت اور نقاہت کے باوجود بھی ہرگز ہرگز نہ چھوڑے
بلکہ جو آپ کا برسوں کا معمول تھا اس کے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ
نیم شب آہ و فغاں کے سامنے
مرحلے جتنے تھے آساں ہو گئے


